Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر18

مجھ۔۔۔مجھے جانے۔۔۔دو۔۔ بولتے ہوئے ازہا کی آواز میں نمی گُھلی تھی،پیچھے دیوار ہونے کی وجہ سے اسکے قدم تھمے،جبکہ زین ازہا کے بلکل قریب آکر رکا تھا،گھنی آئبرو میں لاتعداد بل اور عنابی لبوں کو سختی سے بھنچے دیکھ ازہا کا دل زور سے دھڑکا تھا، مجھ۔۔۔ ششش۔۔ وہ پھر بولنے لگی تبھی زین اسکے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھتا اسے سختی سے ٹوک گیا،ازہا کی دھڑکنوں کی رفتار سست ہوئی تھی اسکی انگلی کا دباؤ لبوں پر محسوس کر کے،باپ کی بےرخی پر پہلے ہی وہ دکھی تھی اوپر سے اب زین کا یہ رویہ،اچانک وہ بھبھک کر رودی،زین جو ناگوار نظروں سے اسے مسلسل گھوررہا تھا،ازہا کے اسطرح رونے پر وہ بےساختہ ایک قدم پیچھے ہوا،پیشانی پر بلوں میں تھوڑی کمی آئی، اچانک اسے اپنے رُوڈ رویے پر تھوڑی پشیمانی ہوئی،اگر وہ پریشان تھا سب کچھ یوں جلد بازی میں ہونے سے تو دوسری طرف ازہا بھی تو ڈسٹرب تھی،نگاہ پھیرتے ہوئے زین اس سے دور ہوا پھر مضبوط قدم اٹھاتا ہوا ڈریسنگ روم میں چلا گیا،اسکے جانے کے فوراً بعد ازہا زین کے کمرے سے نکل کر برابر والے روم میں چلی گئی پھر گیٹ بند کیے گھٹنوں میں سر رکھ کر رونے لگی،ہما کی بات یاد آنے پر اسے نئے سرے سے رونا آیا،پہلے ہی وہ اتنی تکلیف میں تھی اوپر سے باپ کے واپس گھر میں نہ آنے کا مطالبہ،اسکی ہچکیاں بندھی تھیں، ڈریسنگ روم سے نکل کر جب ازہا اسے کہی نہیں دکھی تو وہ سمجھ گیا کہ گریز کی وجہ سے وہ لازماً دوسرے کمرے میں ہی ہوگی،اسکی سوچ سر سے جھٹک کر وہ سیدھا بیڈ پر لیٹا تھا،آنکھیں موندنے پر ایک پری وش چہرہ نظر آیا،زین نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی،آخر کیسے وہ اسے اپنے دل و دماغ سے نکال پائے گا،جانتا تھا کہ وہ کسی اور کی ہے پھر کیوں وہ اسکے بارے میں سوچنے سے خود کو نہیں روک پارہا تھا،اب سونا اسکے لیے بےکار ہی تھا تبھی انگلی سے پیشانی مسلتے ہوئے اٹھا تھا،پھر روم سے نکل کر ایک نظر برابر والے کمرے میں ڈال کر گھر سے باہر چلاگیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر آدھی لڑکیوں کو تو چھڑوالیا۔۔۔باقی کو کیسے اور کب نکوائیں گے۔۔۔۔ تیمور اسے سکرین پر نظریں جمائے دیکھ پوچھنے لگا باقی لڑکیوں کو لے جانے دو۔۔۔ اس نے جتنی رسانیت سے کہا تیمور کو جھٹکا لگا تھا، کیا مطلب سر۔۔۔انہیں اسمگل ہونے دیں۔۔؟ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے پوچھا انہیں بندرگاہ سے ہی پکڑنا ہے۔۔۔ راکنگ چئیر کو آہستگی سے ہلاتے ہوئے وہ بولا اوہ۔۔۔ٹھیک سر۔۔۔ اب کے تیمور ریلیکس ہوا تبھی زین کمپیوٹر روم میں داخل ہوا،اسے وہاں دیکھ زبرین نے دل جلاتی مسکراہٹ سمیٹ ایک آئبرو اچکائی،زین نے خاموش نظروں کے ساتھ ناگواری سے اسکا مسکرانا دیکھا،تیمور کو اب اپنا ان دونوں کے بیچ رہنا عجیب لگا جس کی وجہ سے وہ ہنکارہ بھرتے ہوئے نکلا تھا وہاں سے، تم کیوں آئے یہاں پر۔۔۔تمہارا آج آف ہے آفٹر آل نئی نئی شادی۔۔۔۔نہیں۔۔۔نکاح جو ہوا ہے۔۔۔ اس پر طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے زبرین نے پرسکون لہجے میں کہا زبردستی کا نکاح۔۔۔۔ دانت پیس کر زین نے اضافہ کیا جس پر زبرین کا قہقہہ بلند ہوا، چلو مان لیا زبردستی کا نکاح۔۔۔پر اپنی بیوی کو یوں اکیلا چھوڑ کر کیوں آگئے۔۔۔؟ لب دباکر اس نے محضوظ ہوتے ہوئے پوچھا جبکہ آنکھیں اب بھی مسکرا رہی تھیں، تو تم مجھے بتاؤ گے کہ بیوی کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔ زین نے جیسے اسکی کمزوری پکڑی تھی،اس پر چوٹ کرتا وہ تمسخر اڑاتی نظروں سمیت اسے بولا،زبرین کی مسکراہٹ اچانک سمٹی تھی اسکی بات پر،اب وہ سرد نظروں سے زین کو دیکھ رہا تھا، میرے دشمنوں کے رقیب میرے کچھ نہیں لگتے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ سپاٹ تاثرات سمیت بولا،لہجہ کسی بھی جذبے سے عاری تھا،زین کو اسکی پست سوچ کر افسوس ہوا،نفی میں سر ہلاتا وہ سامنے رکھی چئیر پر بیٹھا آگے کا کیا پلین ہے۔۔۔۔سی پورٹ سے ہی پکڑنا ہے انہیں کیا۔۔۔ بات بدلتے ہوئے زین نے ماحول تھوڑا نارمل کرنا چاہا تو زبرین نے اثبات میں سر ہلایا افسران کو سِول ڈریس میں رہ کر پہلے سِی پورٹ کو چاروں طرف سے کوَر کرنا ہوگا۔۔۔ وہ خود بھی اب شاید اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا تبھی زین کو اپنے اگلے پلین سے آگاہ کرنے لگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روتے روتے وہ وہی پر سوگئی تھی اور اب آدھی رات کو جب اسکی آنکھ کھلی تب خود کو اندھیر کمرے میں پاکر وہ ناسمجھی سے ہر طرف نظر دوڑانے لگی،آہستہ آہستہ سب یاد آیا تو ازہا خاموشی سے اٹھی،پھر گیٹ کھول کر چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی زین کے کمرے میں گئی،اسکا کمرہ خالی دیکھ کر ازہا لاؤنج میں اس غرض سے آئی کہ شاید وہ وہاں پر ہو،پر اسے کہیں بھی نہ پاکر ازہا گھبرائی،آدھی رات کو پورے سن سناٹے گھر میں وہ اکیلی تھی یہ سوچتے ہی ازہا کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں، زززین۔۔۔ ازہا نے ایک مرتبہ ہکلاتے ہوئے اسے پکارا پر اسکا گلا رندھ گیا،آنسو حلق میں اٹکے تھے،پر آگے سے کوئی جواب نہ پاکر وہ رونے لگی،سناٹے میں گھڑی کی ٹک ٹک اسے اور خوفزدہ کررہی تھی،اپنے اندر امڈتے ڈر پر جب وہ قابو نہ پاسکی تو بھاگتے ہوئے وہ زین کے روم میں گئی اور دروازہ دھاڑ سے بند کیے بیڈ پر جاکر لیٹ گئی،کمفرٹر منہ تک اوڑھے اس نے سختی سے آنکھیں میچے دعائیں پڑھنی شروع کردیں۔۔۔ رات کے تیسرے پہر زین گھر پہنچا تھا،گاڑی پورچ پر کھڑی کیے وہ اندر داخل ہوا،زبرین سے پلین ڈسکس کرتے اسے کافی وقت ہوگیا تھا،ہاتھ سے واچ اتارتے ہوئے سیدھا اپنے روم میں آیا پر وہاں اسے اپنے بیڈ پر پاکر ٹھٹھک گیا،جہاں تک اسنے زین کو بتایا تھا وہ تو دوسرے روم میں رہنے والی تھی پھر یہاں اسکے کمرے میں بیڈ پر مشے سے کمفرٹر اوڑھ کر خوابِ خرگوش کے مزے کیوں لوٹ رہی تھی،زین کی پیشانی پر شکن بھرے تھے ایک اضافی و ناپسند وجود اپنے کمرے میں دیکھ کر،ڈریسنگ پر والٹ اور واچ رکھتا وہ بیڈ کے قریب اسکے پاس آیا تھا،کمفرٹر سے اس نے مکمل خود کو چھپایا ہوا تھا حتیٰ کہ چہرہ تک اندر تھا اسکا،اسکے وجود پر ایک نظر ڈال کر زین نے آہستگی سے کمفرٹر ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا،پہلے تو اسے یہ کچھ عجیب لگا پر دماغ میں یہ بات آئی کہ چاہے وہ جیسی بھی ہو بھلے اسکی ناپسند پر اب تو اسکی بیوی تھی،اسکی ملکیت،یہ سوچ آتے ہی زین نے کمفرٹر پکڑتے ہی جھٹکے سے ازہا کے اوپر سے پورا ہٹادیا،پر وہ نیند کی پکّی یونہی بےسود پڑی رہی،پسینے سے اسکے بال چہرے پر چپکے تھے،زین نے جھک کر نرمی سے اسکے بالوں کو چہرے پر سے ہٹایا،پھر بغور اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھنے لگا،گھنیری سیاہ پلکیں سرخ عارضوں پر بچھی تھیں،عارض پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان دیکھ زین نے نہایت ہلکے سے اسکا گال سہلایا تھا،نگاہ بھٹک کر اب اسکے لبوں پر گئی تھی،چھوٹے سے مگر حد درجہ گلابی لب،اس سے آگے وہ کچھ سوچتا پر اچانک اسکے ذہن میں جھماکا سا ہوا،وہ یہ سب کیوں کررہا تھا اور اس لڑکی کے اس قدر نزدیک کیوں ہوا،جھٹکے سے اس سے دور ہوتا وہ کھڑا ہوا،منہ پر ہاتھ پھیر کر زین نے ایک نظر اس چھوٹی مگر حسین لڑکی کو دیکھا جو اب اسکی بیوی کے درجے پر فائز تھی پھر خود کو لعنت ملامت کرتا واشروم میں گیا،کچھ دیر بعد فریش ہوکر وہ نکلا تو نظر سیدھا اس لڑکی کے نازک گداز سراپے پر گئی،تو کیا وہ بہک رہا تھا،یا نتاشہ کے لیے اسکی محبت اتنی کمزور تھی جو وہ اس نازک لڑکی کو دیکھ کر بہکنے لگا تھا،پر نہیں۔۔۔اب ایک نئی سوچ نے اسکا ذہن جکڑا کہ وہ تو اسکی بیوی ہے،جس پر وہ پورا حق رکھتا تھا تو بہکنا کیسا،یہ سب سوچیں اسکا سر بری طرح درد کرنے لگی تھی،تبھی سب خیالوں کو جھٹک کر وہ سونے کی تیاری کرتا بیڈ پر آیا اور بنا ازہا کو دوبارہ دیکھے دوسری طرف آکر لیٹ گیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیمور صبح اپنے گھر سے نکلتے ہوئے مسلسل یمنا کا نمبر ڈائل کررہا تھا پر دوسری طرف وہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں گم تھی،آخر آخر کافی کالز کے بعد جب اس نے ریسیو کیا تو تیمور غصے میں شروع ہی ہوگیا، کہاں تھی۔۔۔۔کب سے کال کررہا ہوں پر میڈم کو جیسے پرواہ ہی نہ ہو۔۔۔۔ اسکا یہ لہجہ سن دوسری طرف یمنا نے ناگواری سے پہلے فون کو دیکھا پھر کہا او ہیلو۔۔۔یہ کس لہجے میں تم مجھ سے بات کررہے ہو۔۔۔یہ اپنے سستے بھرم مجھے مت دکھایا کرو۔۔۔۔ سختی سے بولتی وہ تیمور کو اور تپا گئی، مطلبی لڑکی۔۔۔جب تک تمہاری دوست وہاں قید تھی تب تک تم تیمور۔۔۔۔تیمور کرتی تھی،میرے روعب دکھانے پر یا کچھ بھی بولنے پر چپ رہتی اور اب جب وہ آزاد ہوکر گھر پہنچ گئی تو میرے بھرم سستے ہوگئے۔۔۔۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر دانت کچکچاکر کہنے لگا تو بےساختہ یمنا کے لبوں پر مسکراہٹ آئی، فضول باتیں کر کے میرا ٹائم برباد مت کرو۔۔۔کیا کام ہے بولو۔۔۔ اپنی مسکراہٹ چھپاتی وہ بمشکل اپنی آواز لاپرواہ بناکر بولی میری باتیں تمہیں فضول لگتی ہیں۔۔۔ تیمور کو صدمہ ہوا،یمنا کے ایسا کہنے پر فضول تو تم بھی مجھے لگتے ہو۔۔۔۔اب فون رکھو مجھے نتاشہ سے باتیں کرنی ہے۔۔۔۔ کہتے ساتھ یمنا نے خود ہی کال کاٹ دی،تیمور نے کلس کر فون کو گھورا، خود غرض۔۔۔ غصے میں بآواز بڑبڑاکر وہ کار میں بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بھرپور نیند پوری کرنے کے بعد اس نے اپنی مندمل آنکھیں کھولیں پھر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے آہستگی سے اپنی صراحی دار گردن سہلائی،ہر طرف نظر دوڑانے پر اس کے ذہن میں رات کا منظر آیا،وہ گھر پر اکیلی تھی رات کو تو کیا اب تک زین واپس نہیں آیا تھا،خالی کمرے کو دیکھ اسکے ذہن میں جیسے ہی یہ خیال آیا،وہ جھٹکے سے بیڈ سے اٹھتے ہوئے روم سے نکلی،تیزی سے چلتے ہوئے وہ لاؤنج میں آئی پر وہاں بھی کوئی نہیں تھا،پر اچانک کچن میں ہوتی کھٹ پٹ سے ازہا نے کچن کی جانب رخ کیا،زین کچن میں کھڑا اپنے لیے ناشتہ تیار کررہا تھا کچن میں کسی کی موجودگی محسوس کر کے اس کی نظر داخلی حصے میں گئی،جہاں ازہا بکھرے حلیے میں کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی،اسے دیکھ زین تاثرات تنے تھے،ازہا جو اسے کچن میں پاکر پرسکون سی ہوئی تھی پر اب زین کے چہرے پر سخت تاثرات دیکھ وہ ناسمجھی سے خود کو دیکھنے لگی پر اچانک بوکھلائی، جلدی میں کمرے سے نکلنے کے چکر میں وہ اپنا دوپٹہ ہی لینا بھول گئی،فوراً سے پہلے اس نے اپنا رخ کمرے کی جانب کیا پر لاؤنج پر پہنچتے ہی زین نے پیچھے سے آتے ہوئے ازہا کا بازو اپنی گرفت میں لیا تھا،پھر جھٹکے سے اسکا رخ اپنی طرف کیا،ازہا کی جان ہوا ہونے لگی زین کے تاثرات پر، رات کو کس حق سے میرے بیڈ پر سوئی تھی تم۔۔۔۔؟ وہ اسکے بازو پر سخت گرفت کیے استفسار کرنے لگا،ازہا کا چہرہ بری طرح سرخ ہوئے تمتمارہا تھا،ایک بار پھر زین کے لہجے پر اسکی آنکھوں میں نمی آئی،آنسو بھری آنکھوں سے زین کو دیکھتے ہوئے وہ اسکا مضبوط ہاتھ اپنے بازو سے ہٹانے لگی پر وہ آنسو اسکی آنکھوں سے تب چھلکا جب زین نے اپنے بھرپور استحقاق سے اسکی نازک کمر پر اپنا دوسرا بازو حائل کرتے اسے خود کے قریب کیا،اسکی نظریں ازہا کے خوبصورت چہرے پر الجھنے لگی تھیں،حیاء سے سرخ پڑتا چہرہ،سوجی نم زدہ آنکھیں،بھیگے گال اور کپکپاتے ہوئے گلابی لب،زین کی پُرتپش نظریں اپنے سرخ چہرے پر گڑے محسوس کر کے ازہا لرزنے لگی تھی، کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔؟ زین نے اسکے چپ رہنے پر پھر پوچھا ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اسکے بھیگے گال پر پھسلتے آنسوؤں کو اپنے پوروں میں چنا،ازہا کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں تھی اسکی جسارت پر،اسکی جھلساتی گرم سانسیں اپنے چہرے پر پڑنے سے وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی،زین نے اسے خود سے دور ہونے کے لیے مسلسل مزاحمت کرتے دیکھا تو نرمی سے اسے چھوڑتا دو قدم دور ہوا، جواب دو۔۔۔ اب وہ کافی حد تک سنبھل چکا تھا تبھی اسکے گداز سراپے کو نظروں میں لیے پوچھا مگر لہجہ بلکل سنجیدہ تھا،اس کے دور ہونے پر ازہا بمشکل اپنی دھڑکنیں مخصوص رفتار میں لانے کی کوششوں میں لگی تھی،وہ چونکی وہ۔۔۔رات کو ڈر۔۔۔لگ رہا۔۔۔تھا۔۔۔ کپکپاتے لہجے میں بول کر وہ روم میں جانے لگی، میں نے یہ تو نہیں پوچھا کہ تمہیں ڈر لگ رہا تھا یا نہیں۔۔۔۔میں نے یہ پوچھا کہ تم۔۔۔میرے۔۔۔کمرے۔۔۔میں۔۔۔کیا کررہی۔۔۔تھی؟ زین کی سپاٹ آواز پر اسکے قدم رکے،وہ بےبسی سے مڑ کر اسے دیکھنے لگی جو ناجانے کیوں اسکی جان نکالنے کے درپے تھا، کیونکہ۔۔۔وہ۔۔۔آ۔۔ انگلیاں چٹخاتے بول کر رکی پھر سوچنے لگی،یہ تو اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ زین ہی کے کمرے میں کیوں گئی،اسے سر جھکائے کنفیوز دیکھ زین کے چہرے پر ناچاہتے ہوئے بھی ہلکی سی مسکراہٹ اپنی چھپ دکھلا کر غائب ہوئی، جاکر فریش ہو۔۔۔اور ناشتہ کرلو۔۔۔ اسے مسلسل سوچوں میں گم دیکھ کر مخصوص بھاری آواز میں زین نے کہا،اور ازہا کو تو جیسے اسی بات کا انتظار تھا،وہ اسکے بولتے ہی کمرے کی طرف بھاگی،زین نے لب دبائے اسکی پشت کو دیکھا،کل کے مقابلے میں اب تھوڑا بہتر فِیل ہورہا تھا اسے یہ سب،کہی نہ کہی زبرین کا یہ فیصلہ اسے ٹھیک لگا،اب کافی حد تک وہ اپنے دوست کا دماغ سمجھ چکا تھا،جس انسان کو کل تک وہ غلط سمجھ رہا تھا اب اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس نے جو کیا زین کی بہتری کے لیے کیا،آخر کب تک وہ نتاشہ کا ورد کرتا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اسکے دوست کی بیوی ہے،یوں کسی لاحاصل کا ورد کرنے سے وہ حاصل تو نہیں بن جاتا،ہر لاحاصل انسان حاصل تب ہی بنتا ہے جب آپکے دل میں اسکی محبت شدت پکڑ چکی ہو،جب آپ رب سے کُن کی فریاد کرو،شاید کہ اسکے دل میں نتاشہ کے لیے پسندیدگی ہو،کیونکہ اگر وہ اسے شدت سے چاہتا تو اتنی جلدی کبھی ازہا کو اپنی بیوی کی حیثیت سے قبول نہ کرتا،اپنی سوچ پر ہلکی آسودہ مسکراہٹ لیے زین نے کچن کا رخ کیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے گھر آئے ہوئے کافی دن گزر چکے تھے،شروع میں تو اسکی حالت دیکھ یمنا بہت روئی تھی،طاہر علوی نے پہلی فرصت میں اسکے ٹریٹمنٹ کے لیے لیڈی ڈاکٹرز گھر میں بلائیں تھیں،اب تک وہ جسمانی لحاظ سے کافی بہتر ہوچکی تھی پر اندر سے کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی وہ،یمنا ہر وقت اسکے ساتھ رہتی،کبھی اس کے ساتھ بیٹھ کر نتاشہ کا دھیان بٹانے کے لیے مووی لگاتی تو کبھی اس سے ہنس ہنس کر بات کرنے کی کوشش کرتی پر اس دیوانی کو جیسے روگ ہی لگ گیا تھا،اسکے دل میں زبرین کی محبت بری طرح جڑ پکڑ چکی تھی،ہر پل خاموشی سے بیٹھے وہ اسے ہی سوچتی کہ وہ اس وقت کیا کررہا ہوگا،کیا وہ بھی اسے یاد کرتا ہوگا،اکثر یمنا کو وہ چڑ کر اپنے پاس سے ہٹادیا کرتی یا خود کو روم میں بند کر کے خوب روتی،وہ ہر وقت خوش رہنے والی،وہ ہواؤں میں اڑنے والی،وہ زبرین کی دیوانی اب ہر وقت کبھی خشک آنکھوں سمیت زمین کو گھورتی تو کبھی بھیگی آنکھوں سے آسمان کو تکتے رہتی،معصوم دل تھا کہ اس ظالم سے نفرت تو کیا زرا سی بےرخی پر بھی آمادہ نہ تھا،کبھی وہ شدت سے یاد آتا تو نتاشہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اسکی تصویروں کو دیکھ کر بری طرح رونے لگتی،دل بری طرح کلستا کہ کاش وقت بدل جائے یا کچھ ایسا ہو کہ وہ اسکے پاس چلی جائے،آج یمنا اسے زبردستی سی سائیڈ پر لے کر آئی تھی نتاشہ کا دل بہلانے کے غرض،پر اس بار ان کے ساتھ طاہر علوی نے چار گارڈز بھیجے تھے، آؤ نا نتاشہ۔۔۔یہاں ویسے ہی پانی سے کھیلتے ہیں جیسے بچپن میں کھیلتے تھے۔۔۔۔ اسے لگاتار لہروں کو گھورتے دیکھ یمنا نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا پر نتاشہ نے سپاٹ چہرے کے ساتھ نفی میں سر ہلایا،یمنا نے ایک نظر اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھاما، لڑکی۔۔۔بہت ہوئے تمہارے نخرے۔۔۔میری بات نہیں مانو گی تو بددعا لگے گی میری۔۔۔ اسے زبردستی پانی کی طرف لے جاتے یمنا نے کہا ساتھ ہی ہلکا سا ہنسی، بددعا ہی لگ گئی ہے یمنا میری خوشیوں کو۔۔۔۔ اسکی نم آواز پر یمنا نے رک کر نتاشہ کو دیکھا،جو لب دانتوں میں چلتے ہوئے بمشکل آنسو روکنے کے چکر میں نگاہ ہر طرف دوڑارہی تھی،تبھی کوئی تیزی میں اسکے پاس سے گزرتا نتاشہ سے ٹکرایا تھا،موقع پر اسنے نتاشہ کو بازوؤں سے تھاما ورنہ وہ نیچے گرتی، دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔ یمنا ناگواریت سے اس شخص کو دیکھتے ہوئے بولی جو گول کیپ لگائے چہرہ جھکایا ہوا تھا جسکی وجہ سے اسکا چہرہ دیکھا مشکل ہورہا تھا،یمنا کی بات کو اگنور کرتا وہ تیزی میں دوسری جانب گیا،نتاشہ جو اچانک بوکھلائی تھی ٹکرانے سے،اب کھوئی ہوئی نظروں سے اس ٹوپی والے آدمی کو دیکھنے لگی جو جو چہرہ جھکائے اپنے کوٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے پرسکون سی چال چل رہا تھا، نتاشہ۔۔۔ یمنا کی پکار پر وہ ہوش میں آتے ہوئے اسے دیکھنے لگی پھر واپس ایک نظر اس آدمی کو دیکھ یمنا کی طرف متوجہ ہوئی،وہ الجھن کا شکار ہوئی تھی آخر اس اجنبی سے ٹکرا کر کیوں اسکا کافی دل بری طرح دھڑکا تھا، دور جاتے اس شخص نے ایک ترچھی نظر یمنا کے ساتھ کھڑی نتاشہ پر ڈالی،جو بظاہر یمنا کی باتیں سن رہی تھی پر دماغ اسکا کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا، کافی دن ہوگئے۔۔۔۔اب کیوں نا ملاقات کی جائے ڈارلنگ۔۔۔ مخصوص سرد آواز میں بولتا وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے نتاشہ کو دیکھ کر اپنی کار کی طرف قدم بڑھانے لگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments